Written by:Nishat Naeem

Notes of Urdu for FA

سبق نمبر5

شہرت عام اور بقاء دوام کا دربار

مولانہ محمد حسین آزاد

مرکزی خیال :

یہ دنیا ایک عارضی دنیا ہے باقی ہے گا تو تو صرف اللہ کا نام جو ہمیشہ رہے گا ۔دنیا کی ہعر شے نے ایک دن فنا ہونا ہے۔ یہ بات انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ ایک دن انسان نے مرنا ہے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کوئی بھی دوبارہ واپس نہیں آسکتا لیکن ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے شہرت عام اور بقاء دوام حاصل ہوجائے ۔اس دنیا سے جانے کے بعد اس کا نام باقی رہے۔لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ شہرت صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہوتی جو اپنے لیے دوسروں کےلیے جیتے ہیں جو انسانیت کی فلاح و بہبود ، معاشرے کی بہتری اور اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں جو اپنی زندگی دوسروں اور ملک کی ترقی کےلیے قربان کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا نام رہتی دنیا تک قائم رہتا ہے نہ کہ منصب کی بناء پر جلال شان و شوکت یا پھر بادشاہ کی بناء پر پوری نہیں ہوتی۔ اپنی جانیاں دوسروں پر نثار کرنے والوں کو شہرت عام اور بقاء دوام حاصل ہوتی ہے۔

سوال ۱: مصنف نے بقاء دوام کی کتنی قسمیں لکھی ہیں ؟ واضاحت کیجئے؟

بقاء دوام کی قسمیں اور وضاحت:

مصنف مولانہ محمد حسین آزاد نے بقاء دوام کی دو قسمیں بیان کی ہے یعنی دو طرح کی چیز کو بقاء حاصل ہے ایک تو روح ہے جو فی الحقیقت بعد مرنے کے رہ جائے ہعنی مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے فنا نہیں ہوتی روزقیامت کے دن یہ روحیں اپنے اپنے اجسام میں واپس لوٹ جائیں گی۔ دوسری عالم میں یاد گار کی بقاء جس کی وجہ سے لوگ نام کی عمر جیتے ہیں ۔
اور شہرت دوام کی عمر پاتے ہیں ۔ عظیم کارنامے کی بدولت مرے دم تک نام زندہ رہتا ہے جسے کسی شخص نے اپنے ملک وقوم کی بھلائی و ترقی کی خاطر سرانجام دے ہوں ۔گویا ایسے لوگ مرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔


"ایسے رہا کروکہ کریں لوگ آرزو
ایسے چلن چلو کہ زمانہ مثال دے"

سوال ۲: خوبصورت درحقیقت کون تھیں ؟
خوبصورت عورتیں :

قلہ کوہ سے ایک تنہائی کی سی آواز آنی شروع ہوئی یہ دلکش آواز سب کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ یہ آواز سب کے دلوں میں جان اور جان میں زندہ دلی پیدا کردیتی تھی لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو عورتوں کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے میں محو ہیں۔ درحقیقت یہ عورتیں ان کی ترقی میں مائل ہیں مصنف کے مطابق خوبصورت عورتیں غفلت، عیاشی اور خودپستدلی ہیں جس میں کھوکر انسان اپنی منزل سے دور ہوجاتا ہے اور انسان ذلت ورسوائی کے کنویں میں گر جاتا ہے۔مولانہ مجمد حسین آزاد آگے فرماتے ہیں کہ عورتیں نہ ہی میزباں اور نہ ہی انکی اولاد نہیں بلکہ یہ تباہی و بربادی غفلت اور عیاشی کی تصویریں ہیں جو ترقی کے راہ پر چلنے والے شخص کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں اپنے جمال جن سے انھیں اپنے منزل سے محروم کرتے ہیں کمزور اور پیست ہمت والے لوگ انکی جال میں پھنس کر اپنی منزل کھودیتے ہیں۔

سوال ۳: ایرانی شعراکو دربار میں کیوں نہیں آنے دیا گیا؟
ایرانی شعرا :

ایرانی شعرا کا یہ دعوی تھا کہ ہم معنی و مفامین کے مصور ہیں لیکن اسکو یہ جواب دیا گیا کہ تم حصو بے شک اچھے مگر بے اصل اور غیر حقیقی اشیاء کے مصور ہو۔ تمہاری تصویروں میں اصلیت اور وقعیت کا رنگ ہیں البتہ انتخاب ہو سکتا ہے۔ اس لیے تم سب کو بقاء دوام کے دربار میں جگہ نہیں دے جاسکتی۔ البتہ چند شعرا اس قابل ہیں جو اس دربار میں جگہ پاسکتے ہیں چونکہ ایرانی شعرا نے ذیادہ تر حسن و عشق کے شاعر کی۔ان کے دیوان میں ملک و قوم کی بھلائی کےلیے کوئی مواد نہیں تھا۔اس لیے ان کو دربار میں نہیں آںے دیا گیا۔

سوال ۴: سلطنت میں میراث نہیں چلتی سے کیا مراد ہے؟
:سلطنت میں میراث نہیں چلتی

پہلے زمانے میں بادشاہ ہوں کا نظام رائج ہواکرتا تھا۔ بادشاہ کے وفات کے بعد اسکا بیٹا تخت نشین ہوتا اسطرح ایک سلسلہ جاری رہتا۔ لیکن بہادر اور طاقت ور حکمرانوں کے سامنے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں وہ اپنے زور وباز سے دوسرے ملکوں پر حملہ کرکے حکومت چھین لیتے تھے اسکی جگہ بادشاہ کی حکومت کرتے ۔چنگیز خان نے بھی تلوار کے زور پر مختلف ممالک کو فتح کیا اور کہا کہ یہ ضروری نہیں سلطنت میں میراث چلے ۔ بادشاہ کا بیٹا ہی بادشاہ بنے بلکہ طاقت ور کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہے وہ اپنے طاقت اور زور پر کرسکتا ہے چنگیز خان نے اپنی اس بات کو سچ کرنے دکھایا اور طاقت کے بل بوتے پر حکمرانوں سے حکومتیں چھین لی۔

سوال ۵: شیخ سعدی کیا کہتے ہوئے باہر چلے گئے؟
:شیخ سعدی کا فرقان

شیخ سعدی جونہی بقاء دوام کے دربار میں آئے سب لوگ ان کے استقبال میں کھڑے ہوئے کیونکہ ہر کوئی ان کی مشہور کتابیں گلستان اور بوستان کو نہیں جانتا تھا لیکن وہ یہ کہ کر دربار سے چلے گئے کہ دنیا دیکھنے کے لیے ہے بر تنے کےلیے نہیں۔بقول علامہ اقبال :
"نہ زمین کےلیے ہے نہ آسمان کےلیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کےلیے"

سبق نمبر 6

چند روز ایک روڈرولر کے ساتھ

ڈاکٹر وزیر آغا

:مرکزی خیال

انسان اگر اپنے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھا نہیں تو موجود ہر چیز کوئی نہ کوئی پیغام دیتی ہے کوئی بھی چیز بے کا نہیں ہوتی بلکہ وہ کارآمد ضرور ہوتی ہے یہ بات انسان پر منحصر ہے کہ انسان ان چیزوں کو کس حد تک محسوس کرتا ہے یہ انسان کی فطرت ہے کہ چیز سے اسے مطالب نہ ہو اس میں دلچسپی نہیں لیتا۔ چیزوں کے کئی رخ ہوتے ہیں اور انھی میں بیغام بھی پوشیدہ ہوتا ہے چیز کے مخفی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی بات سامنے آتی ہے جس سے تخلیقی جو ہر کی بدولت چیز کو نئے ملتے ہیں ۔جس طرح روڈرولر زمین کو پختہ کرنے کے کام آتا ہے لیکن مصنف کے ایک اور زاویے سے دیکھا ہے کہ یہ زندگی کو موجودگی کا احساس دلاتا ہے چیزیں اپنی موجود کی موجودگی کا اعلان کرنے لگتی ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ روڈرولر زندگی کا حصہ نہیں بلکہ ایک خودمختار دھڑکتی اور سانس لیتی ہوئی موجودگی کا مظہر ہے۔
سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میں"
"ثبات ایک تغیر کو ہے اس زمانے میں

سوال ۱ : روڈرولر کی شکل و صورت کیسی تھی؟
:روڈرولر کی شکل وصورت

روڈ رولر جسمات کے اعتبار کے لحاظ سے بہت بڑا تھا۔اسکی جسامت دینو مساری حما پانی پہلوانوں کی طرح ایک پہاڑ ہے مگر گوشت کا پہاڑ نہیں بلکہ کالے لوہے کا پہاڑ ہے۔

سوال ۲: روڈرولر کس رفتار سے چل رہا تھا؟
رفتار: روڈرولر بہت آہستہ آہستہ جل رہا تھا یہ مشکل پچاس گز کا فاصلہ گھنٹہ پھر کے لگا تار سفر میں طے کیا۔

سوال ۳: مغربی میں الو کو کس چیز کی علامت سمجھا جاتا ہے؟
مغربی میں الو کی علامت: مغرب میں الو کو فلاسفر کہا جاتا ہے کیونکہ یہ پرندہ ہر وقت دنیا سے بے نیاز ہوکر سوچوں میں گم رہتا ہے اسے عقل ودانائی کی علامت سمجھاجاتا ہے۔
سوال ۴: مصنف نے روڈرولر پر کتنی دیر سفر کیا؟
مصنف کا روڈرولر پر سفر: مصنف نے روڈرولر پر تقریبا دو گھنٹے کا سفر کیا۔
سوال ۵: مصنف نے روڈرولر کی رفتا ر پر کن خیالات کا اظہار کیا؟
:مصنف نے روڈرولر کی رفتا ر پر کن خیالات
مصنف کے شدید خواہش کے بعد روڈرولرنے اسے بیٹھنے کا موقع دیا۔

مصنف نے جب روڈرولرپر بیٹھا تو تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک ہلکے سے جھٹکے کے بعد رواں دواں ہو۔ وہ بہت آہستہ چل رہا تھا مگر تا دیر میں مفیکہ نہ کر سکا کہ وہ چل پڑا ہے یا ابھی کھڑا ہے مصنف نے روڈرولرکی رفتار کا اندازا لگانے کے لیے ایک نظر نہر کے پانی پر ڈالی ۔ پانی کی سطح پر کسی پرندے کا پر بہتا ہوا نظر آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ روڈرولرکے برابر گزرا اور پھر آگے چلا گیا گھنٹہ بھر کے لگا تار سفر بہ مشکل پچاس گز کا فاصلہ طے کیا پھر پورے پندرہ منٹ اس نے درخت کے سائے پار کرنے میں لگادئے۔مصنف کے مطابق روڈرولربہت سست چل رہا تھا۔

سبق نمبر 7

سعادت حسن منٹو۔

:مرکزی خیال

زندگی میں کبھی انسان بیمار رہتا تو کبھی صحت یاب کچھ بیماریاں نفسیاتی ہوتی ہیں ۔ یہ تو زندگی کا معمول ہے صحت اور بیماری ۔ بیماری کی صورت میں انسان بیماری کو اپنے اوپر سوار نہ کرے اور نہ ہی مایوس ہو بلکہ اپنے آپ کو ہر وقت خوش رکھنا چاہئے۔ مایوس اور ہمت ہارنے سے انسان اور بھی کمزور ہوجاتا ہے اسطرح تو بیماری واپس نہیں جاتی بلکہ اور طاقتور ہو جاتی ہے ہاں اگر انسان اللہ پر توکل اور اپنے آپ کو ہشاس بشاش رکھنے کی کوشش کرے تو کافی حد تک بیماری کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جس طرح منظور کا نچلا دھڑ بالکل بے کا ر ہو چکا تھا مگر وہ پھر بھی ہر وقت خوش رہتا ۔ دوسرے مریضوں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتا ۔ زندگی کے آخری لمحے تک وہ اپنی صحت یاب کے لیے پر امید تھا وہ دوسروں کو بھی ہمت دیتا کہ وہ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزارے ۔ لیکن جب تک وہ زندہ رہا اس نے بیماری کی حالت میں ہسپتال میں بستر پر پڑے رہنے کے باوجود ہنسی خوشی کے ساتھ دن گزارے ۔

سوال ۱: اختر کو کس حالت میں ہسپتال لیا گیا؟
:اختر کو ہسپتال میں کیوں لایا گیا

اختر ہر وقت بیمار رہتا تھا اسے دل کا دورہ پڑ جانے کی وحہ سے ہسپتال میں لایا گیا اسکی حالت بہت خراب تھی پہلی رات اسے آکسیجن پر رکھا گیا ڈیوٹی پر موجود نرس اس کا خیال رکھتی تھیں اسکی نبض کی رفتار غیر یقینی تھی ۔ وہ کبھی زور زور سے پھراپھراتی اور کبھی لمبے لمبے وقفے کے بعد چلتی تھی ۔ اس کا پورا جسم پسینے سے بھرا تھا درد کی وجہ سے وہ بے چین تھا وہ پوری رات کروٹ پر کروٹ بدلتا ۔ وہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا آنکھیں اندر دھنس چکی تھی ناک بھی برف کی طرح ٹھنڈا ہو چکی تھی سارے بدن پر کھچک کچا ہٹ طاری تھی۔ پس نہایت نازک حالت میں اختر کو ہسپتال میں لایا گیا۔

سوال ۲: منظور کی بیماری کی وجہ کیا تھی؟

منظور کی بیماری : منظور کی بیماری کی وجہ فالج جیسا جان لیوا مرض تھا ۔ کیونکہ ایک دن کھیل کود سے واپس آیا اور فورا ہی ٹھنڈے پانی سے نہایا ۔ چونکہ اس کا بدن فرم تھا اس لیے اس پر فالج کا حملہ ہو ا جس سے اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا اور وہ فالج کی زر میں آگیا۔

سوال ۳: منظور ہسپتال سے کیوں نہیں جانا چاہتا تھا؟

وجہ: ڈاکٹر منظور کی صحت یاب ہونے سے مایوس ہوچکے تھے ڈاکٹر صرف اس کے والدین کا دل رکھنے کے لیے علاج کر رہے تھے اس پر فالج کا شدید حملہ ہوا تھا جسکی وجہ سے اس کا نچلا دھڑ بیکار ہوچکاتھا ایک دن ڈاکٹر نے منظور کے والد سے کہا کہ اب اسے گھر لے جائیں اب اس کا علاج نہیں ہوسکتا منظور کو صرف اتنا پتہ چلا کہ اب اس کا علاج ہسپتال کے بجائے گھر پر ہوگا اور بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر وہ گھر جانا نہیں چاہتا تھا اختر نے جب اس سے پوچھا کہ وہ ہسپتال میں کیوں رہنا چاہتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔ والد صبح سویرے دکان پر چلا جاتا اسکی ماں ہمسائی کے ہاں جاکر کپڑے سیتی ہے میں وہاں اکیلا ہوں گا یہاں تومیں سب کے ساتھ باتیں بھی کرتا ہوں وہاں کس سے باتیں کروں گا ہسپتال میں تو ہر ایک کے ساتھ اسکی دوستی تھی اس لیے وہ ہسپتال سے گھر جانا نہیں چاہتا تھا۔

سوال ۴: اختر کے خیال میںاس کے صحت مند ہونے کی کیا وجہ تھی؟

اختر کے صحت مند ہونے کی وجہ: ہسپتال میں اختر کی منظور سے دوستی ہوگئی اختر نے دیکھا کہ فالح جیسے جان لیوا بیماری میں بھی منظور ہر وقت خوش رہاکرتا تھا اس نے کبھی اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھا اس نے منظور کی مثال سامنے رکھ کر اپنے درد اور تکلیف پر کافی حد تک قابو پالیا ۔ وہ اپنے صحت یاب ہونے کا سبب انجیکشن یا روٹیوں کو نہیں سمجھتا تھا بلکہ اسکی نظر میں منظور کی شخصیت ہی اسکی بیماری میں افاقہ ہونے کی وجہ تھی کیونکہ اس نے بیماری میں خوش رہنے کا گرو منظور سے سیکھا تھا ۔منظور کی ذات اس کی نظروں مسیحا کا رتبہ رکھتی تھی اس نے اس کو دوبارہ زندگی عطا کی تھی اس کے دل و دفاع سے مایوس کے تمام کالے پردے ہٹادئے تھے جس کے سائے وہ اتنی دیر تک گھٹی گھٹی زندگی بسر کرتا رہا تھا اس کی مایوسی آرازو امید میں تبدیل ہوگئی تھی اسے زندہ رہنے سے دلچسپی ہوگئی تھی ۔ الغرض وہ اپنے صحت مند ہو نے کی وجہ کو منظور سمھتا تھا۔

سوال ۵ : ہسپتال کے اہلکاروں کا منظور کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟
:ہسپتال کے اہلکاروں کا منظور کیساتھ رویہ

منظور کی شکل و صورت معمولی تھی ۔ غیر معمولی کشش تھی ہر وقت اس کے چہرے پر تمتماہٹ رہتی وہ ہر وقت خوش رہتا تھا بہت زیادہ باتونی تھا بیمار ہونے کے باوجود وہ ہسپتال کے تمام اہلکاروں کے ساتھ خوش اخلاق سے ملنا اور ہر ایک سے باتیں کرتا ۔ہمیشہ دوسروں کا سلام کرنا میں پہل کرتا۔ سب نرسیں اس کی بہنیں تھیں اور سب ڈاکٹر اس کے دوست ۔ ڈاکٹر اس کا بہت خیال رکھتےغرض ہسپتال کے تمام اہلکاروں کا منظور کے ساتھ بہت ہی اچھا رویہ تھا۔