Written by:Nishat Naeem

Notes of Urdu for FA

سبق نمبر ۸

"کتبہ"

غلام عباس

مرکزی خیال :

دنیا میں ہر انسان اپنے اندر بے شمار خواہشات رکھتا ہے دراصل خواہشات انسان خود پیدا کرتا ہے خواہشات کبھی ختم نہیں ہوتے جب تک انسان فنا نہیں ہوجاتا۔ خواہشات انسان کے اندر موجود رہتی ہے ایک موج کی طرح پیدا ہوتی نہ روکنے والی ۔ انسان زندگی کے میدان میں آگے بڑھنا چاہتا ہے لیکن ہر ایک خواہشات پوری نہیں ۔ انسان بہت سی خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہے کوشش کرنے کے باوجود بھی بعض لوگوں کی ترقی کرے کی تمنا کی دل میں رہ جاتی ہے جس طرح شریف حسین محنت و دیانت داری سے کئی سالوں تک کام کرنے کے باوجود درجہ دوم کلرک سے آگے ترقی نہ کرسکا ۔ اور نہ ہی اپنا ذاتی مکان بنا سکا۔ اس نے اس امید پر اپنے نام کا کتبہ بنوایا کہ اسے اپنے نئے مکان لگادیا اس کی حسرت ادھاری رہ گئی مصنف کے بقول کتبہ کو نا مکمل خواش خواہشات کی علامت کے طور پر پیش کیا۔

بقول علامہ اقبال
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا"
"کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
سوال ۱: کلرکوں میں کس عمر کے لوگ شامل تھے؟

کلرکوں میں کس عمر کے: کلرکوں میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے ان میں کچھ چھوٹی عمر اور نا تجربہ کار عمر کے لوگ شامل تھے ۔ جن کی ابھی موچیں اور داڑھی نہیں نکلی تھیں جنھوں نے کچھ ماہ پہلےمیٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور کلرک بن گئے اور بڑی عمر کے جہاں دیدہ ورنہایت تجربہ کار بھی شامل تھے جن کو ملازمت ہوئے پچیس سے تیس برس ہوچکے تھے۔

سوال ۲ : شریف حسین اس دن گھر کے بجائے جامع مسجد کی طرف کیوں چل پڑا؟

:گھر کے بجائے جامع مسجد کی طرف
شریف حسین کی بیوی مہینے کے شروع میں میکے چلی گئی تھی وہ گھر پر اکیلا تھا ۔ دفتر سے چھٹی کے بعد وہ گھر جانے کے بجائے شہر کی جامع مسجد کی طرف چل پڑا ۔جس کی سیڑھیوں پر ہر شام سستا ما ل بیچنے والے اپنی دکانیں سجایا کرتے تھے اور ایک میلا سجا لگا رہتا ۔ لوگ کا ہجوم ہوتا ۔ الغرض شریف حسین اپنا وقت گزارنے اور تماشہ دیکھنے کی خاطر گھر کے بجائے جامع مسجد کی طرف جاتا ۔

سوال نبر 3 - شریف حسین نے سنگ مرمر کے ٹکڑے کاکیا مصرف سوچا

سنگ مرمر کے ٹکڑےکا مصرف: جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ایک کباڑی کی دکان پر شریف حسین کوایک سنگ مرمرکاٹکڑا نظر آیا۔اسے اس ٹکڑے کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن نہ چاہتے ہوئےاس نے وہ ٹکڑا ایک روپے میں خریدا گھر آنے کے بعد رات کو جب وہ کھلےآسمان کے نیچے اپنے گھر کی چھت پر اکیلا بستر پر کرویٹں بدل رہا تھا تو اس سنگ مرمر کے ٹکڑے کامصرف اس کے ذہن میں آیا۔اس نے سوچا کہ خدا کے کارخانے عجیب ہیں ۔ وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے کسی بھی وقت اسکی ترقی ہو سکتی ہے اسکے دن پھر سکتے ہیں۔ وہ کلرک درجہ دوم سے ترقی کر کے سپرنٹنڈنٹ بن جائے اور اسکی تنخواہ بڑھ سکتی ہے۔پھر ایسی صورت میں وہ اپنے لیے مکان بنا کر اسی سنگ مرمر کے ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا کے دروازے کے باہر نصب کرے گا۔متقیل کی یہ خیالی تصویر اس کے ذہن پر کچھ اسطرح چھاگئی کہ وہ اس سنگ مرمرکے ٹکڑے کو بالکل بے مصرف سمجھتا تھا اب اسے احساس ہونے لگا اگر میں اسے نہ خریدتا تو بڑی بھونی ہوتی۔

سوال نمبر 4 سنگ مرمر کے ٹکڑے پر اپنا نام کھدا ہوا دیکھ کر شریف حسین نے کیا محسوس کیا

اپنا نام کھدا ہوا دیکھ: مہینہ ختم ہونے کے بعد جب شریف حسین کو تنخواہ ملی تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس سنگ مر مر کے ٹکڑے کو شہر کے ایک مشہور رنگ ترا ش کے پاس لے گیا جس نے بڑی مہارت سے اس پر اس کا نام کندہ کر کے دونوں کونوں میں چھوٹی چھوٹی خوبصورت بیلیں بناویں ۔ اس سنگ مر مر کے ٹکڑے پر اپنا نام کغدا ہوا دیکھ اسے عجیب سی خوشی ہوئی کیونکہ یہ اسکی زندگی کا پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنا نام اس قدر جلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا تھا۔

سوال ۵: اس افسانے سے کیا اخلاقی سبق ملتا ہے؟

اخلاقی سبق: اس افسانے سے ہمیں یہ اخلاقی سبق ملتا ہے کہ زندگی خواہشات اور تمناوْں کا دوسرا نام ہے۔ انسان کی زندگی انہی خواہشات سے وابستہ ہے ۔ انسان کی بہت خواہشات پوری نہیں ہوتی بہت سی ارمان حسرتیں اسکے دل میں رہ جاتی ہے ہزاروں کوششوں کے باوجود وہ آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ۔ جو انسان کی قسمت میں ہوتا ہے وہی کچھ اسے ملتا ہے جو مقدر میں ہوتا ہے توتقدیر ہمیشہ غالب رہتی ہے ہر انسان کو اپنے اپنے مقدر کے مطابق ملتا ہے لیکن پھر بھی انسان کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے " ہمت مرد مدد خدا" اپنی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیئے ۔ تب ہی زندگی میں خوشیاں آسکتی ہے ایک کام پورا نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیئے ۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے ۔

۔ بقول شاعر
ہزاروں خواہش ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے"
"بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

سبق نمبر ۹

"مائیں"

احمد ندیم قاسمی

مرکزی خیال :

مرکزی خیال : عورتیں ہمیشہ لڑتی جھگڑتی رہتی ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث شروع کردیتی ہے لڑائی جھگڑا عورت کے فطرت میں ہے لیکن عورت کے روپ میں یہی عورت پیارومحبت کا مسیحہ بن جاتی ہے کیونکہ عورت مامتا کے روپ میں اپنے بچے کے ساتھ کسی دوسرے بچوں کو بھی تکلیف نہیں دیکھ سکتی ۔لڑائی جھگڑے کے باوجود بھی وہ کسی دوسری عورت کے بچے کو ایک نگاہ سے دیکھے ۔ یہی وجہ تھی کہ بیگم کے بیٹے نے خواجہ کے بیٹے کو پنسل کی نوک سے زخمی کیا تو بیگم راجہ نے اپنے بیٹے کو سزا دینے کےلیے لکڑی سے مارنے کی کوشش کی تو بیگم خواجہ آڑے آگئی کہ وہ بچے کو سزا دینا برداشت نہیں کرسکتی تھی دونوں نے ایک دوسرے کے بچوں کو سینے سے لگالیا۔

سوال نمبر۱: دونوں بیگمات کے برعکس ان کے شوہروں کے تعلقات کیسے تھے؟

شوہروں کے تعلقات: دونوں بیگمات کے برعکس شوہروں کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ وہ دونوں اکھٹے واک کرتے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گپ شپ کرتے بات بات پر ہنستے۔

سوال ۳: زلزلہ آنے پر بیگم راجہ کا کیا رد عمل تھا؟

زلزلہ آنے پر بیگم راجہ کا ردعمل : ایک روز شام کے وقت ہلکا سا زلزلہ آگیا اور بیگم راجہ یہ سمجھیں کہ بیگم خواجہ نے ساتھ والے کمرے میں پلنگ گٹھیا ہے فورا کھڑکی میں آکر بیگم خواجہ کو بے نقط سنائیں کہ وہ بے چاری زلزلہ کو بھی بھول گئی لیکن جب اسے شوہر نے بتایا کہ زلزلہ آیا تو وہ دھب سے زمین پر بیٹھ گئی کیونکہ اس نے سنا تھا کہ اگر کوئی زلزلہ کے دوران لڑ کھڑا جائے اور گر پڑےتو وہ مرگی کا مرض ہوجاتا ہے۔

سوال ۴: محلے کے بزرگ کے سمجھانے پر راجہ صاحب کا کیاجواب تھا؟

راجہ صاحب کا جواب: ایک دن محلے کے ایک بزرگ نے دونوں کو روک کر کہا کہ آپ بھلے لوگ ہیں اپنی بیتمات کو لڑائی جھگڑا سے روکیے پورا محلہ بدنام ہورہا ہے ۔ اس پر راجہ صاحب نے نہایت ادب سے جواب دیا کہ یہ عورتوں کامعاملہ ہے ہم اور آپ اگر ان میں مداخلت دیں گے تو اچھے نہیں لگیں گے ۔ آپ اگر انی بیگم صاحبہ کو ان کے پاس بھیج کر انھیں سمجھاسکیں تو سبحان اللہ ورنہ کوئی ایسی خاص بات نہیں اکھٹے ہوئے برتن بھی ٹکرا کر بج اٹھتے ہیں یہ تو ماشاءاللہ جیتی جاگتی عورتیں ہیں۔

سوال ۵ : پانی کی بالٹی میں گند گرنے پر دونوں بیگمات کا کیا موقف تھا؟

دونوں بیگمات کا موقف: ایک دن بیگم راجہ کے بیٹے کی گیند اچانک اچھل کر کھڑکی میں سے گزری اور بیگم خواجہ کی پانی کی بالٹی میں جا گری ۔ بیگم راجہ چلانے لگی کہ بیگم خواجہ نے جان بوجھ کر گیند بھگودی تاکہ یہ پھر گیلی مٹی سے بھر جائے اور مٹی سے بچے کے ہاتھ خراب ہوجائے ۔ اپنے کپڑے بھی خراب کر لیےاور پھر مجھے کپڑے کھونے پڑے صابن کا خرچ الگ ہو اور وقت الگ ضائع ہو۔ادھر بیگم خواجہ کا یہ موقف تھا کہ گیند بچے نے نہیں بیگم راجہ نے بھینکی ہے اور تاک کر بالٹی میں بھینکی ہے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ہمارا نل بند ہوچکا تھا اور اب پینے کے لیے بہشتی منگوانا پڑے جان بوجھ کر پانی خراب کیا ہے جبکہ ایک مشک پورے دو آنے کا آتی ہے ۔ چنانچہ دونوں بیگمات اپنے غلط موقف پر قائم تھیں خواہ مخواہ بات کو طول دے رہی تھیں ۔

بیگم راجہ کا رد عمل : جب بیگم راجہ نے بچے کی ران پر زخم دیکھا تو اسکا دل پسیج گیا اسے بچے پر پیار آگیا اور بچے کو اٹھا کر تھپکنے لگی اور روکر کہا کہ جس نے بھی تیرا یہ حال کیا اس کے ہاتھ جل جائیں اس کے آنسو پونچھنے لگی اسے چومنے لگی اور دعائیں دیں ۔

"تو جگ جگ جیئے اور میں تجھے سہرا باندتھے دیکھوں اتنے میں اس کابیٹا آیا تو اس نے جھپٹ کر اسے چار پانچ تھپڑ لگائے بچے کی چیخیں پورے محلے میں گونج گئیں ۔ پھر باورچی خانے سے لکڑی لاکر اسے پیٹ پر دے ماری۔

سوال ۲: شاہد یہی وجہ تھی کہ محلے والوں کو جھگڑے کا زیادہ لطف نہیں آتا تھا اس جملے میں اک مخصوص ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے وضاحت کریں۔

وضاحت: بیگم راجہ اور بیگم خواجہ ہر وقت آپس میں لڑتی جھگڑتی رہتیں۔لڑائی ان کا روزانہ کا معمول بن چکا تھا جو نہی یہ جھگڑا کرتیں تو محلے کی عورتیں ان کی باتیں سننے کےلیے گھروں کی چھتوں پر چڑھ جاتیں یا کھڑکیوں میں سے آدھی آدھی باہر نکل آتیں ان کی باتوں میں الزام تراشی بہت کم اور بددعائیں بہت زیادہ ہوتی تھیں شاہد یہی وجہ تھی کہ محلے والوں کو جھگڑے کا زیادہ لطف نہیں آتا تھا۔جب جھگڑا ختم ہوتا تو یوں اداس چہرے لیے پیٹس تھیں مردوں نے توسرے سے دلچسپی لینا ہی چھوڑدی تھی اس بات میں ایک مخصوص ذہنیت کی عکاسی نظر آتی ہے۔اکثر لوگ دوسرے کی خامیاں سے واقف ہونے کے در پے ہوتے ہیں ان باتوں کا تبصرہ جگہ جگہ پر کرتے ہیں اور بعض لوگ ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر انھیں تنگ کرتے ہیں ۔ پس مندرجہ بالا واضاحت میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں بیگمات غیر اخلاقی سر گرمی میں ملوث نہ تھیں بلکہ وہ چھوٹی چھوٹی باتو ں کا پتنگڑ بناتی تھی۔ خواہ مخواہ باتوں کو طول دیتی تھیں اک دوسری پر الزام تراشی کے بجائے بددعائیں دیتیں۔ جس سے منفی سوچ رکھنے والے لوگوں کو لطف نہ آتا ۔ کیونکہ ایسے لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑائی کے دوران ان کی کمزوریوں کا پتہ چل سکے ۔

سبق نمبر ۱۰

سیاہ فام

شوکت صدیقی۔

مرکزی خیال :

برائی کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے جو لوگ اپنے پیٹ پالنے کےلیے غلط کام ہیں یا غلط طریقے سے کاروبار کرتے ہیں ذلت رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے کہیں کے نہیں رہتے اور معاشرے میں عبرت کا نشان بن جاتے ہیں ناجائز طریقے جیسے جتنی بھی دولت جمع کی جائے یا پھر روزی کمانے کے لیے نت نئے غلط حربے استعمال جائیں ایک نہ ایک دن ان کا بھانڈہ پھوٹ جاتا ہے ۔لہذا با عزت اور باوقار زندگی گزارنے کے لیے انسان کو محنت سے کام کرنا چاہئے۔روزی کمانے کے لیے جائز طریقے استعمال کرنے چاہئیں ایک روٹی ہو لیکن حرام کی کمائی کی ہو ۔حرام کا لقمہ کھانے والے کی عبادت قبول نہیں ہوتی ۔اس لیے انسان کو محنت آنی چا ہئیں کیونکہ محنت میں عظمت ہے ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

"بن محنت کچھ ہاتھ نہ آئے ناداری

محنت ایسا جادو جس سے ریت بنے پھلواری"

سوال ۲ :سکینہ بیگم کے بیٹے کو کیا ہوگیاتھا ؟

سکینہ بیگم کے بیٹے : سکینہ بیگم کا اکلوتا بیٹا ارہر کی کھچڑی نہ لگانے پر اپنی ماں سے ناراض ہو کر گھر سے بھاگ گیا تھا عرصہ دراز تک اسکی کوئی پتہ نہیں تھا لیکن اسکے جاننے والے کو بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ ریل کے ایکسیڈنٹ میں مر گیا ہے جب انھوں نے یہ اطلاع سکینہ بیگم کو پہنچائی تو وہ ماننے کو تیا ر نہیں تھی وہ ہر روز شام کو کھچڑی پکاتی اور بیٹے کی منتظر رہتی تھی لیکن وہ نہ آتاتھا۔

سوال ۳: 

مکھن ٹوش کا نعرہ : مکھن ٹوش کا نعرہ ایک کرنل کے بھوت کا تھا کرنل کئی محاذ پر دشمنوں سے لڑچکا تھا لیکن اسے مرنا نصیب نہیں ہوا بلکہ اس کی موت خودکشی کے ذریعے ہوئی تھی محلے کے ساتھ والے قبرستان میں اسکی قبر تھی جس پر سنگ مرمر کا ایک کتبہ لگا ہوا تھا محلے میں مشہور تھا کہ مرنے کے بعد کرنل بھوت بن گیا ہے ۔سنسان اور تاریک راتوں میں نکل کر لوگوں کو ڈراتا ہے کچھ لوگوں نے اس کو دیکھا تھا اور اسکی زبان پر یاک ہی سوال تھا "مکھن ٹوش "

سوال ۴ : جب کوئی رہگر بے ہوش ہوجاتا تو عبداللہ کیا کرتا؟

رہگر بے ہوش ہونے پر عبداللہ کا ردعمل : عبداللہ نے اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالنے کے لیے بھوت کا روپ دھارا ہواتھا۔ وہ رات قبرستان کے ساتھ تنگ گلی میں چلا جاتا اور گلی میں داخل ہونے والے شخص کے سامنے خوفناک آواز میں "مکھن ٹوش " کا نعرہ لگاتا۔کمزور دل راہ گیر یہ سن کر بے ہوش ہوجاتے تو اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوتے پہلے ان کے ہاتھو ں سے کھانے پینے کی چیزیں لیتا تھا پھربے ہوش ہونے والے راہ گیر کی چیزوں کی تلاشی لیتا اور ان سے نقدی اڑالیتا۔

سوال ۵: جب لوگوں نے شام کے بعد گھروں سے نکلنا چھوڑدیا تو عبداللہ نے خوراک کے حصول کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا؟

خوراک کے حصول کا طریقہ : جب لوگوں نےیہ دیکھا کہ رات کے اندھیرے میں بھوت ہوتا ہے تو انھوں نے گھروں سے نکلنا چھوڑدیا بھوت کی وجہ سے محلے والے بہت خوف زدہ ہوگئے۔ چنانچہ خوراک کے حصول کے لیے اس کے ذہن میں ایک نیا حربہ آیا کہ کسی دروازے پر دستک دے کر باہر آنے والے شخص کے بے ہوش کر کے اس کا مال وسباب لوٹا جائے۔

سوال۶: بھوت سن کر محلے والوں نے کیا کیا؟

بھوت سن کر محلے والوں کا ردعمل: جب عبداللہ نے کسی ایک گھر کے دروازے پر دستک دی تو کچھ دیر بعد ایک شخص نے دروازہ کھولا اور کہا کون ہے ؟ سامنے آوْ عبداللہ نے اندھیرے سے نکل کر یاک دم اس کے سامنے خوفناک آواز میں کیا "مکھن ٹوش" یہ سنتے ہی وہ شخص ڈرگیا زور زور سے بھوت بھوت کی آواز میں چلانے لگا اسکی آواز پر بہت سارے لوگ جمع ہوگئے عبداللہ گھبرا گیا اور اپنے آپ کو بچانے کےلیے قبرستان کے پاس والی تنگ گلی میں داخل ہوگیا لیکن لوگوں نے اسکا پیچھا نہ چھوڑا اور اسے پتھر مارنے شروع کیے۔

سوال ۷ : عبداللہ کی موت کہا واقع ہوئی؟

عبداللہ کی موت: جب لوگ عبداللہ کو پتھرمارہے تھے تو وہ کافی زخمی ہوچکا تھا قریب ہی ایک گیند کیچڑ تھا یعنی بدرروکے اندر داخل ہوجائے تو وہ سنگ بار سے بچ جائے گا ۔ چنانچہ وہ نالی کے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا کہ اچانک اس کے سر پر ایک بڑا سا پتھر آلگا اور وہ وہی ڈھیر ہوگیا جب و ہ مرا تو اس کا چہرہ نالی کے اندر تھا اور کیچڑ سے بھرا ہوا تھا۔

سبق نمبر ۱۱

"محسن محلہ"

اشفاق احمد

مرکزی خیال :

مرکزی خیال: مصیبت کے وقت کسی کے کام آنا اصل ہمدردی ہے یہ انسانیت کی معراج ہے جو لوگ دوسروں کی محض عزت کرتے ہیں لیکن انکی تکلیف کو دور کرنے کی انھیں کوئی فکر نہیں ہوتی ایسے لوگ اپنی سستی میں سست ہوتے ہیں مصیبت دور کرنے کی انھیں پرواہ نہیں ہوتی اسیے لوگ معاشرتی برائیوں کے زمہ دار ہوتے ہیں اللہ تعالی فرماتے ہیں میں نے انسان کے دردل کے واسطے پیدا کیا عبادت کےلیے تو ہزاروں فرشتے ہیں مگر انسان ایک دوسروں کے مشکل وقت میں کام آسکے نیکی یہ ہے کہ مشکل وقت میں کھڑے شخص کی مدد کی جائے نہ کہ مرنے کے بعد محض لوگوں کو دکھانے کے لیے پیسے اکھٹے کر کے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے ۔ کیونکہ زندہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا ہی اللہ کی خوشنودی حاص کرنے کا ذریعہ ہے ۔ بقول شاعر

"درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں"

سوال 1:محسن محلہ کے لوگ ماسٹر صاحب کے بارےمیں کیا جانتے تھے؟

ماسٹر صاحب کے بارے: محسن محلہ کے لوگ ماسٹر الیاس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے تھے مگر اتنا پتہ تھا کہ وہ ایک مہاجرہے اور ان کا تعلق انبالہ کے کسی علاقے سے ہے کیونکہ وہ وہی زبان بولتا تھا جو انبالہ میں بولی جاتی ہے۔ ماسٹر صاحب کرائے کی کوٹھری میں رہتا تھا جہاں وہ بچوں کو پڑھاتا تھا اس کے علاوہ سبزی منڈی میں منشی گیری کرتے تھے۔ نیز انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ ماسٹر صاحب کی گزر مشکل سے ہوتی ہے اور ماسٹر صاحب معاشی اعتبار سے برے حالات سے گزر رہے ہیں۔

سوال 2: ماسٹر صاحب کس طرح کے آدمی تھے؟

ماسٹر صاحب کی شخصیت : دراصل ماسٹر صاحب سیدھے آدمی تھے اور ان کو زمانے کے ساتھ جینے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا ۔ کچھ تو وہ اس انداز میں گفتگو کرتےکہ کسی کو ان کی باتوں کا یقین نہیں آتا تھا وہ کبھی جھوت نہیں بولتا تھا وہ نہ ہی ہیرا پھیری کرتے تھے ۔شیخی بگھارنا ان کی عادت نہیں تھی وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے تھے جس سے دوسرے لوگ خوف زدہ ہوجائیں وہ نیک دل اور سب سے ہنس کر بولنے والے شخصیت کے مالک تھے۔

سوال 3: لوگ ماسٹر صاحب سے دوستی کرنا کیوں پسند نہیں کرتے تھے؟

وجہ: ماسٹر صاحب محلے اور معاشرے میں رہنے والے لوگوں کی عادت سے مختلف تھے وہ سادہ اور نہایت بے ضر انسان تھے چونکہ لوگ عام طور پر اپنی مماش کے لوگوں سے دوستی کرنا پسند کرتے تھے ماسٹر چونکہ لوگوں سے ذراہٹ کر رہتے تھے وہ ایک غریب انسان تھے سارے محلے پر اور ساری سوسائٹی پر ایک بوجھ سا لگتے تھے چونکہ ایسے لوگوں کے ساتھ رسم وراہ پیدا کرنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا وہ کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تھے اس لیے لوگ ماسٹر صاحب سے دوستی کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

سوال 4: مالک مکان نے ماسٹر صاحب سے کیا سلوک کیا؟

مالک مکان کا ماسٹر صاحب کے ساتھ رویہ: سردیوں کی ایک شام مالک مکا ن نے ماسٹر الیاس کو بڑے سخت الفاظ میں ڈانٹا اور دھمکی دی کہ اگر تین دن کے اندر پچھلے ماہ کا کرایہ ایک ساتھ ادا نہ کیا تو ان کا سامان مکان سے نکال کر باہرپھینگ دیا جائے گا اس کے پاس ایک سو اسی روپےکی رکم موجود نہیں تھے ۔ صرف جالیس روپے تھے ۔ مقررہ وقت پر جب مالک مکان کو کرایہ نہ ملا تو اس نے سامان اٹھا کر باہر پیھنک دیا اور مکان کو تالا لگایا ۔لہذا مالک مکان نے ماسٹر صاحب کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا ۔

سوال 5 : ماسٹر صاحب کے مرنے کے بعد لوگں نے کیا طرز عمل اپنایا؟

ماسٹر صاحب کے مرنے کے بعد لوگوں کا ردعمل: وہ لوگ جو جیتے جی ماسٹر صاحب کو ایک روپیہ قرضہ دینے کو تیا ر نہیں تھے ماسٹر صاحب کے مرنے کے بعد ہر ایک نے ہمدردی دکھائی ۔ لوگ گھروں سے نکل کر ٹرانسفارمر کے نیچے اسکی لاش کے ساتھ آبیٹھے۔ ایک بڑی سے دری بجھادی اور دو تین تازہ اخبار لاکر رکھ دیے۔ پھر کفن دفن کا انتظام کیا گیا۔لوگوں نے ماسٹر صاحب کی رسم قل کےلیے پیسے جمع کرنے شروں کیے ہر ایک نے افسوس کا اظہار کیا ماسٹر صاحب کی زندگی میں کسی نے بھی اسکی مدد نہ کی لیکن مرنے کےبعد ہر شخص صدمے سے دو چار نظر آرہا تھا۔

سوال 6: ماسٹر صاحب کا کیا انجام ہوا؟

ماسٹر صاحب کا انجام : ماسٹر صاحب کو ٹرانسفارمر کے نیچے سوتے ہوئے آٹھواں دن تھا۔ سخت سردی کی وجہ سے بیمار ہوگیا ڈاکٹر کے مطابق ماسٹر صاحب کو نمونیہ ہوگیا تھا ۔ ماسٹر صاحب اسی نمونہ کی وجہ سے فوت ہوگیا۔ ماسٹر صاب کی زندگی میں لوگوں نے اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اس نے مکان کا کرایہ ادا کرنے کےلیے ہر فرد سے گڑگڑا کر ادھار مانگا لیکن کسی نے بھی مددنہ کی ۔ مالک مکان نے اسے گھر سے نکال دیا ماسٹر صاحب نے کمر سی کی حالت میں جان دے دی گویا اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔

سبق 12

"کنڈیکٹر"

الطاف فاطمہ

مرکزی خیال :

visit www.learninghints.com

مرکزی خیال: وطن کی محبت ایسی لازوال دولت ہے کہ کوئی دنیاوی دولت اس کے ہم پلہ نہیں ہوسکتی ۔وطن سے محبت کا یہی جذبہ انسانوں کے علاوہ پرندوں اور حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ وہ لوگ قابل تعریف ہیں جنھوں نے حصول پاکستان کے سلسلے میں اپنا بھر پور کردار کیا ۔ پاکستان کی خاطر انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔تاریخ ایسے عظیم لوگوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے وہ اپنےآپ کو بھول گئے کے ذہن میں صرف ایک ہی بات تھی کہ ہم انگریزوں کے قبضے سے آزاد ہوجائیں اور اپنے لیے ایک علیحدہ خودمختار وطن حاصل کرکے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں۔ آخر کارناقابل فراموش قربانیوں سے ایک آزاد ملک پاکستان باشندے ہیں۔ اختر شیرانی کہتے ہیں۔

"عشق و آزادہ بہار زیست کا سامانے ہے

عشق میری جان آزادی میرا ایمان ہے"

"عشق پہ کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی

لیکن آزادی پ میرا عشق بھی قربان ہے "

سوال ۱: لالو کے بارے میں ماسٹر صاحب کیا کہتے تھے؟

لالو کے بارے میں ماسٹر صاحب کے خیالات: لالو پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس کی تعلیمی رفتار سست اور مایوس کن تھی اس نے اپنے کورس کی کتاب رٹ رکھی تھی لیکن ماسٹر صاحب اس سے مطمئن نہیں تھے۔وہ لالو کے بارے میں کہتا تھا کہ خبیث کو ایک لفظ نہیں آتا اور یہ کہ خاک پڑھے گا جب دیکھو اس نے کولہیے پر کوئی نہ کوئی بچہ اٹھایا ہوتا ہے جس سے اسکی توجہ پڑھائی پر نہیں رہتی ۔اس لیے وہ کہتے "تم کیا پھڑو گے؟ گھاس کھودوگے تم تو بہن بھائیوں چاکری کرو گے ۔بخیرا بنوگے۔

سوال ۲:لالو گھر سے غائب ہوکر کہاں جاتا تھا؟

گھر سے غائب ہونے کی وجہ: لالو گھر سے غائب ہوکر مسلم لیگ کے دفتر پہنچ جاتا اور ایک رکن کی حیثیت سے کام کرتا۔

سوال ۳: ماسٹر صاحب لالو اور اس کے بھائی کو کہاں سے پکڑ کر لائے تھے؟

لالو اور اسکا بھائی: ایک دن لالو اور اس کا صبج کے وقت گھر سے نکلے اور دوسری صبح تک واپس گھر نہ پہنچے۔ ان کی ماں پوری رات روتی رہی دن کے وقت جب ماسٹر صاحب پڑھانے آئے تو انھیں دونوں بھائیوں کی گمشیدگی کی اطلاع دی گئی۔ ماسٹر یہ سن کر الٹے قدموں واپس لوٹ گئے۔ چاربجے اس شان سے نمودار ہوئے کہ ایک ہاتھ ایک کی ، دوسرا دوسرے کی گردن پر ۔ دونوں کو لیاقت علی خان کے جلوس میں سے پکڑ کر واپس لے آئے ۔

سوال۴: قیام پاکستان کے بعد لالو نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟

قیام پاکستان کے بعد لالو کی زندگی: قیام پاکستان کے بعد لالو کراچی چلا گیا وہاں اس نے ایک نائٹ سکول پھر کالج جوائن کرلیا۔ وہاں ایک لیڈی ٹیچر سے شادی کرلی ایک گھر بھی بنالیا اب اس کی زندگی بڑے مزے سے گزر رہی تھی۔

سوال۵: لالو کی سرگرمیوں پر لالو کے والد نے کن خیالات کا اظہار کیا؟

والد کے خیالات: لالو نے تحریک پاکستان میں ایک فعال رکن کی حیثیت سے حصہ لیا اس نے اپنی تعلیم چھوڑدی۔وہ روزانہ مسلم کے دفتر جاتا اور شہر کی دیواروں پر پوسٹر چپکاتا وہ قومی گیت گاتا رہتا ۔ جب اسکی والدہ نے لالو کی شکایت اسکے والد سے کی کہ وہ لالوکو منع کرے تاکہ وہ پڑھائی پر توجہ دے ۔ لالو کے والد نے ہنس کر جواب دیا کہ بیگم اب ہم کس کس کو روکیں گے۔ یہ تو وقت کی آوازہے ، ندہان خلق ہے ۔ارے تم تو اندر گھر میں بیٹھی ہو ہم سے پوچھو ملازمت کی وجہ سے اپنے آپ کو کس کس طرح روکتے ہیں ۔ گویا لالو کے والد کو لالو کی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔

سوال۵: لارڈماوْنٹ بیٹن کون تھا؟

لارڈماونٹ بیٹن : لارڈ ماونٹ بیٹں ہندوستان کا آخری واسرائے تھا جو 1947ء میں لارڈ ویول کی جگہ ہندوستان کا واسرائے مقرر ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد 1948ء تک بھارت کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے پ رفائزرہا۔1952ء میں بحرالکاہل کے بیڑے کمان سپرد کی گئی اسکے بعد برطانوی وزارت دفاع میں چیف سٹاف مقرر ہوا۔کچھ عرصے بعد آئرلینڈ کے ساحل پر آئرش دہشت گردوں نے اسے بم مارکر ہلاک کردیا۔

سبق نمبر 13

"ایک وصیت کی تعمیل"

فرحت اللہ بیگ

مرکزی خیال :

مرکزی خیال: وہ لوگ جو دنیا میں کچھ کر گزرتے ہیں یعنی وہ لوگ جو اپنے آپ کی پرواہ کیے بغیر اپنی زندگی دوسروں کےلیے صرف کرتے ہیں مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ رہتا ہے ایسے لوگوں کے کارنامے بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں لوگ انکی قدر و عزت کرتے ہیں ان کا رہتی دنیا تک قائم رہتا ہے۔ الغرض انسان کو چاہئے کہ وہ ملک وقوم کی بھلائی کے لیے کام کرے اور ایسے کارنامے انجام دے کہ مرنے کے بعد اس کا نام زندہ رہے کیونکہ اپنی ذاتی اور اپنی مفادات کی خاطر کوئی جینا ہیں دوسروں کےلیے جینا ہی اص زندگی ہے۔

سوال۱: مولوی صاحب اور فرحت اللہ بیگ کی ملاقات کب اور کیسےہوئی ؟

مولوی صاحب اور فرحت اللہ بیگ کی ملاقات: مولوی وحید الدین اور مولوی فرحت اللہ کی ملاقات حیدر آباد کے ریلوے سٹیشن پر ہوئی دونوں صاحبان مولوی عبدالحق کی دعوت پر کالج کے جلسے میں شرکت کےلیے اورنگ آباد جارہے تھے۔ دونوں صاحبان حیدرآباد میں رہتے تھے مگر کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے۔جب سٹیشن پر مولوی صاحب کو فرحت اللہ بیگ کے بارے میں بتایا گیا تو وہ ہجوم کو چیرتے پھاڑتے ہوئے بڑی تیزی سے میری طرف چلے آئے اور آتے ہی مجھے گلے سے لگا لیا۔

سوال۲: مولوی صاحب کا حلیہ اپنے الفاظ میں بیان کریں؟

مولوی صاحب کا حلیہ:مولوی صاحب متوسط قد کے آدمی تھےان کا جسم مضبوط تھا۔ پیسٹ کافی بڑا تھا کالی سے رنگت اور چہرے پر چھوٹی سفیر داڑھی تھی ۔ چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں تھیں ان کی شلوار شرعی طریقے کے مطابق ہمیشہ ٹخنوں سے اوپر رہتی تھی ترکی ٹوپی استعمال کرتے ساتھ ہی پاوْں میں جرابیں اور انگریزی جوتاہوتا۔ کشمیری شیروانی بھی پہنتے۔

سوال ۳: فرحت نے مولوی صاحب کے مزاج کے بارے میں کن خیالات کا اظہار کیا؟

مولوی صاحب کے مزاج کے بارے میں فرحت کے خیالات: فرحت نے مولوی صاحب کے مزاج کے بارے میں یہ رائے قائم کی تھی کہ ان میں ظرافت کا مادہ بہت تھا۔ لیکن یہ ظرافت اکثر رکالت کی صورت اختیار کرلیتی۔ کبھی کسی کو بر ابھلا کہتے تو ایسے الفاظ استعمال کرتے کہ سننے والوں کو تکلیف ہوتی۔ پھر یہ نہ دیکھتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کس کے سامنے کہہ رہا ہوں۔ مولوی صاحب بہت کنجوس بھی تھے اچھی خاصی تنخواہ تھی لیکن خرچ نہ ہونے کے برابر تھی۔ انکے مزاج میں یہ بات رج بس گئی تھی کہ کسی نااہل کو کسی اعلیٰ عہدےپر دیکھتے تو انھیں آگ لگ جاتی۔نا اہلوں کو آرام و آسائش میں دیکھ کر وہ زخم ہرے ہوجاتے تھے پھر اس کے بارے میں بے نقظ سنا کر دل ٹھنڈا کرلیتے تھے۔

سوال ۴ : حیدرآبا د کے سالانہ جلسے میں کیا غلط فہمی پیدا ہوئی؟

کالج کے سالانہ جلسے میں غلط فہمی : مولوی عبدالحق کی طرف منعقد کیے جانے والے سالانہ جلسے میں 1261ء کیے جانے والے دہلی کے ایک مشاعر ے کی یاد تازہ کی گئی۔ سٹیج کا انتظام فرحت بیگ کے ذمے لگایا جب مشاعرے کا نمبر آیا تو تھوڑی دیر میں سٹیج کا رنگ بدلنا کچھ آسان کام نہ تھا لوگ کی بےچینی کو کم کرنے کےلیے فرحت کو ایک فرضی تقریر کرنے کی سوجھی۔ چنانچہ اس نے پردے سے باہر آکر مزاحیہ انداز میں تقریرشروع کردی۔ اور کہا کہ یہ مشاعرہ سو سال پہلے مولوی کریم الدین کے گھر منعقد ہوا تھا پھر مولوی صاحب کا پانی پت سے دہلی آیا بڑے مزاحیہ انداز سے دہلی آئے ناموں کے یکساں ہونے کی وجہ سے ان کویہ غلط فہمی ہوئی کہ مولوی کریم الدین دراصل مولوی وحیدالدین کے والد تھی حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی فرحت کے ہاتھ کے اشیاء کی وجہ سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔

سوال ۵: مولوی صاحب اپنی کفایت شعاری کے بارے میں کیا عذر پیش کرے تھے؟

مولوی صاحب کا کفایت شعاری کے بارے میں عذر: مولوی صاحب کی اچھی خاصی تنخواہ تھی مولوی صاحب بڑے کنجوس تھے۔ ہزاروں روپے کی آمدنی تھی لیکن خرچ نہ ہو نے کے برابر تھی ۔ اس کے علاوہ دارالترجمہ سے بھی بہت کچھ مل جاتا تھا۔اپنے اس عمل کو کفایت شعاری کا نام دیتے اور عذر پیش کرے کہ نہیں معلوم مجھے کب نوکری سے نکال دیا جائے پھر برے دن لوٹ آئیں کیونکہ مفلسی کے در پے حملوں نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں ۔لہذا مستقبل میں غربت کے تھپڑوں سے بچنے کےلیے کفایت شعاری کا عذر پیش کرتے تاکہ بچہ ہوا سرمایہ برے دن کام آسکے اور پھر انھیں غربت کے دن نہ دیکھنے پڑیں۔

سوال ۶: مولوی صاحب کی کسی نہ کسی سے بگڑ جاتی " اس جملے کی وضاحت کریں؟

وضاحت: مولوی صاحب کسی پر طنز کرنے سے نہ چوکتے اور اکثر دوسروں کے بارے میں کھلم کھلا ایسے الفاظ استعمال کرتے جسے سننے میں تکلیف ہوتی۔ جب کہنے پہ آتے تویہ نہ دیکھتے کہ میں کیا کہا رہا ہوں اور کس کے سامنے کہارہاہوں اس کا نتیجہ پہ نکلتا کہ لوگ ادھر ادھر بات پھلا دیتے اور مولوی صاحب کسی نہ کسی سے بگڑ جاتی۔

سوال ۷: مولوی صاحب نے اصطلاحات وضع کرنے کےلیے کن اصلوں کا سہارا لیا؟

اصطلاحات وضع کرنے کے اصول: مولوی صاحب کو اصطلاحات وضع کرنے میں بڑی مہارت حاصل تھی وہ اپنے دفاع سے ایسے الفاظ بناتے کہ انسان حیران رہ جاتا۔وہ انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے مگر انگریزی اصطلاحات پر مکمل حاوی تھے۔ وہ یہاں تک جانتے تھے کہ اس لفظ کے کیا ٹکڑے ہیں ۔ ان ٹکڑوں کے اصل کیا ہیں اور اسکے کیا معنی ہیں جو اصول انگریزی اصطلاحات بتانے کے تھے الغرص وہ انھی اصولوں کو اصطلاحات بنانے میں بروکار لاتے تھے۔